زیرِ نظر سرورق شیخ الکل امام نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی اولین مفصل سوانح عمری ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ کا جدید تحقیقی اِڈیشن ہے۔ اس کے مصنف میاں صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید حضرت مولانا فضل حسین بہاری ہیں۔ ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ کی اولین طباعت ’’مطبع اکبری‘‘ آگرہ سے 1908ء میں ہوئی تھی۔ ’’الحیاۃ‘‘ اس وقت منظرِ شہود پر آئی جب کہ اردو سوانح نگاری کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ مولانا بہاری مرحوم عہدِ حالی و شبلی کے ممتاز سوانح نگار تھے۔ اور اس کتاب کی علمی، فنی وادبی اعتبار سے بھی خاص اہمیت ہے۔ ’’الحیاۃ بعد المماة‘‘ کے چند اہم خصائص درج ذیل ہیں
میاں صاحب کے تلامذہ کرام کے اس قدر وسیع حلقے میں مولانا فضل حسین ہی واحد ہستی ہیں جنھوں نے میاں صاحب کی سوانح پر ایک مفصل کتاب تحریر فرمائی۔ یہ بجائے خود لائقِ تحسین امر ہے۔
میاں صاحب کی زندگی کے متعدد چھوٹے بڑے واقعات اور اس عہد کی علمی ودینی سرگرمیوں کا یہ اہم ترین ماخذ ہے۔
عام طور پر مذہبی سوانح نگاری میں جیسی ملمع کاری کی جاتی ہے یہ کتاب ان معائب سے پاک ہے۔ فنِ سوانح نگاری کے اعتبار سے کتاب بڑی عمدگی سے لکھی گئی ہے۔ مصنف فنِ تصنیف سے واقف ہیں۔
3۔ شیخ الکل محدث دہلوی رحمہ اللہ کے 500 تلامذہ کی جو فہرست مولانا نے تیار کر کے شامل کتاب کی ہے، اس کی نظیر برصغیر کے کسی عالم کی سوانح میں نہیں ملتی۔ بلاشبہہ یہ مصنف کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
کتاب کی یہ جدید طباعت دبستان نذیریہ کے رمز شناس اور معروف محقق جناب محمد تنزیل الصدیقی حفظہ اللہ کی تدوین کردہ ہے جس میں قارئین کو مندرجہ ذیل خصوصیات نظر آئیں گی
کتاب کے وضاحت طلب مقامات پر حاشیے میں وضاحت کر دی گئی ہے۔
کتاب میں اگر کوئی غلطی تھی تو حاشیہ میں اس تصحیح کر دی گئی ہے۔ بالخصوص کتاب میں بعض ایسی باتیں بھی درج ہو گئی تھیں جو تاریخی لحاظ سے نا درست تھیں اور مخالفین ان سے استدلال کرتے ہوئے اہل حدیث پر اعتراض کرتے تھے، ایسی باتوں کی تاریخی حقائق اور معتبر مصاد کی روشنی میں حقیقت حال واضح کر دی گئی ہے۔
مصنف نے میاں صاحب کے تمام اساتذہ کے حالات نہیں لکھے تھے، صرف مولانا شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی کے حالات حاشیے میں لکھے گئے تھے۔ اس اڈیشن میں ان کے بقیہ اساتذہ کرام کے مختصر حالات بھی حاشیے میں درج کر دیے گئے ہیں۔ البتہ بلا وجہ کی حاشیہ آرائی سے مکمل گریز کیا گیا ہے۔
کتاب میں عربی و فارسی کے بہ کثرت اقتباسات نقل ہوئے ہیں جنھیں مصنف نے بلا ترجمہ ہی درج کیا تھا۔ اب ان تمام عبارتوں کا سلیس و رواں ترجمہ کیا گیا ہے جو مولانا عبد اللہ سلیم حفظہ اللہ کی قلمی فیاض کا نتیجہ ہیں۔ ان تراجم سے بھی کتاب کی جدید اشاعت کی افادیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
علاوہ ازیں کتاب کے آغاز میں محترم تنزیل صدیقی صاحب نے ایک مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں کتاب کے فنی محاسن، اس کی اہمیت اور مصنف کےحالات بیان کیے ہیں۔
حافظ شاہد رفیق حفظہ اللہ
Reviews
There are no reviews yet.