Blog

دکتور فاضل صالح السامرائی

فاضل السامرائي عراق کے سامراء نامی شہر میں سنہ 1933ء میں پیدا ہوئے، آپ نے کلیۃ التربیۃ سے Baccalaureus ڈگری حاصل کی ہے، پھر اس کے بعد کلیۃ الآداب “القسم اللغوی” سے ماجستر اور دکتورہ کی ڈگری کمپلیٹ کر کے اپنی آپ تقریباً نواسی سال کی عمر کو پہنچ گئے ہیں، معروف لغوی، نحوی اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، عصر حاضر میں تفسیر بیانی لغوی کے باب میں آپ ایک مشہور نام ہیں۔ فاضل السامرائی کے بارے میں چند تحقیقی باتیں:(1) یہ شخص محض علوم عربیہ لغت اور نحو پر دسترس رکھتے ہیں شرعی علوم سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔(2) یہ شخص اپنے ابتدائی دور میں وجود باری تعالیٰ کے تعلق سے مشکوک تھے اور ملحدین سے بہت حد تک متاثر تھے لیکن بعد میں مطالعہ اور غور وفکر کے نتیجے میں ایمان لائے اور “نداء الروح” نامی کتاب لکھی جس میں وجود باری تعالیٰ کا اثبات کیا۔(3) جب غور وفکر کے بعد کسی طرح اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اس تعلق سے ان کے شکوک وشبہات ختم ہوئے تو اب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں متردد اور مشکوک ہو گئے پھر مزید تگ ودو کے بعد انہیں یقین آیا کہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واقعی اللّٰہ کے رسول ہیں اور پھر “نبوة محمد صلى الله عليه وسلم” نامی کتاب تصنیف کی جس میں محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی رسالت کا اثبات کیا۔ (ان دونوں باتوں کا اقرار خود انہوں نے اپنے انٹرویو میں کیا ہے)(4) ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ صفات باری تعالیٰ کی تاویل کے مرتکب ہیں اور مسائل اعتقاد میں شعوری یا لاشعوری طور پر متکلمین اشاعرہ کے منہج پر ہیں، اس امر کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ ان کی تفسیر قرآن کے مراجع بالعموم اشاعرہ معتزلہ کی کتابیں ہیں جیسے زمخشری کی کشاف، فخر الدین رازی کی التفسیر الکبیر، ابو حیان اندلسی کی البحر المحیط اور طاہر بن عاشور کی التحرير والتنوير وغیرہ کتابیں ۔۔۔مثال کے طور پر انہوں نے صفت عین کی تفسیر رعایت وحفاظت اور نگرانی سے کی ہے (على طريق التفسير البياني ٣/ ١٤٦) اسی طرح صفت “الظاهر” کی تفسیر ظہور اور غلبہ یا وجود باری تعالیٰ کے وضوح وظہور سے کی ہے حالانکہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر “فوق” سے کی ہے جس سے صفت علو کا اثبات ہوتا ہے کہ اللہ سے اوپر کچھ بھی نہیں ہے۔(على طريق التفسير البياني ١ /٣٣٣)اسی طرح “وهو معكم أين ما كنتم” کی تفسیر معیت ذاتی اور مصاحبت سے کی ہے کیونکہ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ علم اور مشاہدہ سے بھی اعلی مرتبہ معیت اور مصاحبت کا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ ہر جگہ ہوتا ہے، وهي مرتبة فوق المشاهدة وهي مرتبة القرب۔(على طريق التفسير البياني ١/ ٣٣٩)وغیرہ وغیرہ ۔۔۔(5) انہوں نے جہاد کی منسوخی کا دعویٰ کیا ہے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جن سورتوں کی ابتدا “سبح” فعل ماضی سے کی ہے ان میں جہاد وقتال کا تذکرہ کیا ہے اور جن سورتوں کی ابتدا “یسبح” مضارع سے کی ہے ان میں قتال وجہاد کا ذکر نہیں کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں جو قتال ہو گیا سو گیا، حال اور مستقبل میں نہیں کرنا ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ جہاد ترک کر دے اور جنگ وقتال سے باز آ جائیں۔۔۔ملاحظہ فرمائیں:…ليس هنالك سورة في القرآن تبدأ بـ (سبح) إلا ويجري فيها ذكر للقتال وليس هنالك سورة في القرآن تبدأ بـ (يسبح) إلا لم يذكر فيها القتال. هذا توجيه للناس في الحاضر والمستقبل أن يتركوا القتال، أن لا يقاتلوا، الذي جرى جرى في تاريخ البشرية والله تعالى حكيم فعل ما فعل ودعا الناس يفعلون ما يشاؤون، هو التوجيه للخلق، للعقلاء، للناس، للمسلمين أنه في الحال والاستقبال عليهم أن يتركوا القتال ويعيشوا حياتهم، ينصرفوا إلى التعاون وما هو أنفع وما هو أجدى وما هو خير. هو توجيه لما يقول (يسبح) المضارع يدل على الحال والاستقبال لم يذكر القتال وكأنما هو توجيه – والله أعلم – للخلق في حاضرهم ومستقبلهم أن يتركوا القتال، أن لا يتقاتلوا فيما بينهم، أن يتفاهموا، أن يتحاوروا، أن يتحادثوا، أن تكون صدورهم رحبة، هذا أنفع لهم من القتال، الماضي ماضي ذهب لكن (يسبح) كأنه توجيه لعباده. الرابط بين القتال والتسبيح: التنزيه عما لا يليق والقتال لا يليق۔( لمسات بيانية ص:١٢٢) اسی طرح سورہ صف اور سورہ حدید کی تفسیر کرتے ہوئے بھی یہی دعویٰ کئے ہیں (دیکھیں: على طريق التفسير البياني الجزء الأول)(6) اسی طرح انہوں نے قتال جیسے عظیم اسلامی شعار کو غیر مناسب اور نا پسندیدہ قرار دیا ہے جیسا کہ درج بالا عبارت میں ہے “والقتال لا يليق” لہذا لوگوں کو چاہئے کہ باہمی تفاہم اور اپسی بات چیت کے ذریعے اپنے مسائل کو حل کرے اور وسعت ظرفی وکشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قتال سے اجتناب کرے کیونکہ یہ قتال سے زیادہ مفید ہے!!!!اس طرح کی مزید چیزیں ہیں جو ان کی کتابوں کے تنقیدی مطالعے سے سامنے آتیں ہیں لہٰذا عام اور غیر متمکن طالب علموں کو ان کی کتابوں سے دور رہنا چاہیے تاکہ غیر شعوری طور پر گمراہی کا شکار نہ ہو جائے۔۔

مامون رشید بن ہارون رشید سلفی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *