غالبا ماہ اگست 2018 کی بات ہے فیلڈ ورک کے لئے حیدرآباد جانے کا اتفاق ہوا۔ کئی احباب سے واٹس ایپ کے ذریعہ تعارف تھا، سو ان سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ جن لوگوں سے ملاقات ہوئی ان میں ایک بھائی تھے جن کا نام سلمان تھا۔ ائرپورٹ سے مکان قیام تک پہونچنے کا راستہ نہیں معلوم تھا انھوں نے کافی مدد کی اور الحمد للہ میں بخیر وعافیت اپنے قیام کی جگہ پر پہونچ گیا۔
سلمان بھائی نے ملاقات کا وعدہ کیا تھا اور حسب وعدہ ایک دن بعد صلاۃ عشاء ملاقات کی غرض سے پہونچ گئے۔ ملاقات ہوئی اور کچھ دیر کے بعد سلمان بھائی واپس چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں نے ان کے دئے ہوئے تحفہ کو کھولا تو اس میں ایک کتاب ملی۔ کتاب کا نام تھا ”اچھا عالم کیسے بنیں“ جو کہ شیخ عبد العزیز السدحان کی کتاب کا ترجمہ تھی۔ کتاب دیکھنے کے بعد میں نے رکھ دی اور اس دن کے بعد سے مطالعہ کی غرض سے کبھی بھی اس کتاب کو نہیں کھولا۔
جب مجھے کلیۃ الحدیث، بنگور میں داخلہ مل گیا اور میں کلیۃ پہونچ گیا تو مطالعہ کا شوق پیدا ہوا۔ سوچا کہ کس کتاب سے آغاز کروں؟ پھر نظر مذکورہ کتاب پر پڑی اور اسی کا مطالعہ شروع کر دیا۔ کتاب کے مطالعہ کے درمیان اپنے اندر بہت ساری کمیاں اور خامیاں پائیں، جن کو دور کرنے کی کوشش شروع کر دی اور الحمد للہ کافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی۔
آج جب بھی وہ دن یاد کرتا ہوں تو بے اختیار اس بھائی کے لئے دعا نکلتی ہے کہ جس کی وجہ سے مجھے اپنی کمیوں کو دور کرنے کا موقع ملا (فجزاہ اللہ خیرا)۔
آج ہم نے تحفہ تحائف کی سنت کو سنن مہجورہ بنا رکھا ہے۔ اولا تو جلدی کسی کو تحفہ دیتے ہی نہیں اور جب دیتے ہیں تو اوٹ پٹانگ تحائف دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
اسلامی کتب تحائف کی شکل میں دینے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ جہاں تحفہ کی فضیلت حاصل ہوتی ہے اور آپس میں محبت بڑھتی ہے وہیں وہ کتب تحفہ دینے والے کے لئے صدقہ جاریہ کی ایک بہترین شکل مہیا کرتی ہیں۔
آپ کی زندگی کا بہترین تحفہ کیا ہے؟؟؟ میری نظر میں وہ کتاب میرے لئے ایک بہترین تحفہ ثابت ہوئی!
کتبہ عمر اثری سنابلی